نثریات

۔۔۔۔۔۔

"عبادت کرتے کرتے۔۔ احترام کرتے کرتے میں تھک چکا تھا۔۔ عبادت اور احترام کی بھی کوئی حد ہوتی ہے۔ چنانچہ میں عبادت میں نہیں۔۔ عبادت کرنے والوں کے چہروں میں گم ہو گیا۔۔

ان چہروں میں۔۔ جن کی تسلی صحن حرم میں ایک مختصر گردش سے نہیں ہوتی تھی۔۔ جن کی مسافتیں طویل تھیں۔۔ قرآن پڑھتے۔۔ نفل ادا کرتے۔۔ یا سر جھکائے گریہ کرتے لوگوں سے پرے۔۔ گیلری کے ساتھ چلتے طواف کرتے چہروں میں گم ہو گیا۔۔

ان سے دور ایک گنبد سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا لیکن ان چہروں پر زوم ان کر کے انہیں فوکس میں لاتا تھا۔۔

جسے میڈیا کی زبان میں"بگ بگ کلوز" کہا جاتا ہے۔۔ اس میں لاتا تھا۔۔

رب کے گھر کے گرد۔۔ بےشک دوسری منزل پر گرداب میں جان بوجھ کر آئے ہوئے ہر چہرے کو گویا ناک سے ناک ملا کر اتنی قربت سے دیکھتا تھا کہ ان کے نین نقش تو عیاں ہوتے تھے، پر ان کے چہروں پر جو شوق اور عشق کے سامان تھے ان کو بھی رُو بہ رُو پاتا تھا۔۔

میں گویا قرۃ العین طاہرہ تھا کہ چہرہ بہ چہرہ۔۔ رُو بہ رُو تھا۔۔ اگرچہ اس رُوگردانی کرنے والی۔۔ عشق میں کوچہ بہ کوچہ پھرنے والی خاتون کا حوالہ یہاں مناسب تو نہیں۔۔

ایک ناول نگار نے کہا تھا کہ مجھے صرف ایک چہرہ چاہیے جو اپنی سچائی اور محبت میں ڈوبا ہوا ہو تو میں اُس چہرے پر ایک بڑا ناول لکھ سکتا ہوں۔۔

صرف ایک چہرہ چاہیئے۔۔

اور یہاں تو ہزاروں چہرے میری نظر کے فوکس میں آتے تھے جو اپنی سچائی اور محبت میں ڈوبے ہوئے۔۔ غرق ہو چکے تھے اور ان پر۔۔ ہزاروں ناول لکھنے کا سامان موجود تھا۔۔"


منہ ول کعبے شریف

از

مستنصر حسین تارڑ


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"جو لوگ احرام میں تھے اور عمرہ ادا کرنے کی نیت سے آئے تھے وہ مقام ابراہیم کے پاس نفل ادا کر کے صفا اور مروہ کی جانب سعی کرنے کی خاطر چلے گئے۔۔ اور ہم صحن کعبہ میں اطمینان سے گھومنے لگے کہ اس میلے میں گھومنے کا بھی عجیب لطف تھا۔۔ درمیان میں طواف جاری تھا اور ارد گرد صحن کا جو حصہ خالی تھا وہاں لوگ بیٹھے تھے۔۔ باتیں کر رہے تھے۔۔ عبادت کر رہے تھے۔۔ تلاوت میں محو تھے۔۔ بچے دوڑتے پھرتے تھے۔۔ مائیں بچوں کو دودھ پلا رہی تھیں اور کچھ لوگ ہجوم سے الگ کسی ستون کی آڑ میں۔۔ کسی کونے میں اپنے آپ میں۔۔ اپنے آپ میں جو رب تھا، اس میں اور سامنے جو اس کا گھر تھا، اس میں غرق بیٹھے تھے۔۔ یہ وہ تھے جو سب سے بےخبر تھے اور خانہ کعبہ میں تنہا تھے۔۔

"والد صاحب تھک تو نہیں گئے؟"

"نہیں یار۔۔"

"میرا خیال ہے کہ تھک گئے ہیں، آرام کرنا چاہتے ہیں؟"

"کہا جو ہے کہ نہیں تھکا۔۔ ایک اور طواف کر کے دکھاؤں..؟"

وہ دونوں مسکرانے لگے۔۔

دراصل ان کو خدشہ تھا کہ یہ جو ابا ہے جو گھنٹی بجنے پر گھر کا گیٹ کھولنے کے لئے جاتا ہے۔۔ واپس آتا ہےتو دھڑام سے صوفے پر گر جاتا ہے کہ تھک گیا ہوں تو یہ ابا جو زقندیں لگاتا پھرتا ہےتو یقیناً کسی بھی لمحے تھکن سے ڈھے جائے گا اور ہمیں مصیبت میں ڈال دے گا۔۔ یونہی شوخ ہو رہا ہے۔۔ کہتا ہے کہ ایک اور طواف کر کے دکھاؤں۔۔"



منہ ول کعبے شریف

از

مستنصر حسین تارڑ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"والد صاحب آئیں میں آپ کو ایک شاندار مقام پر لے کر چلتا ہوں۔۔ اور وہاں منظر ہے۔۔"

ہم حرم کے ڈھکے ہوئے حصے میں آئے اور وہاں سے سیڑھیاں طے کر کے پہلی منزل پر آئے۔۔ یہاں بھی خانہ کعبہ کو نظر میں رکھ کر طواف جاری تھا۔۔ خوب رونق تھی۔۔ یہاں ایک منزل کی بلندی سے خانہ کعبہ کی ایک مختلف تصویر نظر آتی تھی، اس کے ریشمی سیاہ غلاف پر سنہری دھاگوں کاڑھی ہوئی آیات قریب آتی لگتی تھیں کہ درمیان میں زائرین حائل نہ تھے۔۔ نظر کے سامنے کوئی رکاوٹ نہ آتی تھی۔۔ اور جو سفید گردش تھی ہم اس کی سطح سے اوپر تھے اس لئے اس کے بہاؤ کی تصویر بھی جدا دکھائی دیتی تھی۔۔

ہم دوسری منزل پر پہنچ گئے۔۔

اوپر کھلا آسمان تھا۔۔

اور بدن کو بوسے دینے والی ٹھنڈک بھری ہوا کروٹیں بدلتی آتی تھی۔۔ اور واقعی یہ ایک شاندار مقام تھا۔۔

اور یہاں ایک منظر تھا۔۔

یہاں سے۔۔ سنگ مرمر کے شفاف فرش اور گنبدوں سے آگے۔۔ ریلنگ کو تھام کر نیچے تو نظر کیجئے۔۔ رات کے اس پہر۔۔ شائد تین بج رہے تھے۔۔ صحنِ حرم کے درمیان روشنیوں میں دھلا ہوا۔۔ سیاہ غلاف میں ڈھکا ہوا خانہ کعبہ ایک خواب لگتا تھا۔۔ غیر مرئی لگتا تھا۔۔ جیسے یہ گھر پل دو پل کے لیے آسمان سے اترا ہے۔۔ عرشوں کے سفر نے اسے تھکا دیا ہے تو پل دو پل کے لیے سستانے کے لیے براجمان ہو گیا ہے۔۔ اور خلق خدا کو خبر ہو گئی ہے اور وہ اس کے گرد ہو گئی ہے۔۔ اسے گھیرے میں لے لیا ہےکہ تمہیں جانے نہ دیں گے۔۔ اور وہ جو گردش کے گھیرے میں آ چکا ہے، منتظر ہے کہ کب ان کا طواف اختتام کو پہنچے اور میں پھر سے کوچ کر جاؤں۔۔ اللہ عرش پر بے گھر ہے۔۔ لیکن خلق خدا بھی جانتی ہے کہ طواف ختم ہو گا تو اس کی نیت کوچ کر جانے کی ہے، چنانچہ طواف ختم ہی نہیں ہوتا۔۔ جاری رہتا ہے۔۔ تو وہ کیسے کوچ کر جائے۔۔ کر بھی جائے تو اوپر رب سرزنش کرے گا کہ جن بندوں کے لیے میں ہوں اور جو میرے بندے ہیں انہیں چھوڑ کر کیوں آ گیا۔۔ تو کیسا گھر ہے۔۔

یہاں سے خانہ کعبہ ایک فلم کا سیٹ دکھائی دیتا تھا اور وہ ان تھک سرپھرے پھیرے باز اداکار دکھائی دیتے تھے۔۔

اس منظر میں ایک سحر تھا۔۔ ایک جادوگری تھی کہ اس پر یقین نہ ٹھہرتا تھا۔۔ نظر ٹھہرتی تھی تو لاچار ہو جاتی تھی۔۔ پھر سے اٹھتی نہ تھی۔۔

میں یہاں سے دوسری منزل کی بالکونی سے نیچے رات کے تین بجے کروٹیں بدلتی ٹھنڈک بھری ہوا اپنے رخساروں پر محسوس کرتا اس منظر کو نہ دیکھتا تو ہم دونوں ادھورے رہ جاتے۔۔ میں بھی اور خانہ کعبہ بھی۔۔"


منہ ول کعبے شریف

از

مستنصر حسین تارڑ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"گنبد کے گرد ایک دو اینٹ کی اونچائی کا گھیرا تھا اور میں اس پر بیٹھا تھا اور میرے برابر میں۔۔ مجھ سے دو اینٹ نیچے فرش پر پھسکڑا مارے ایک لال گلال گوری تُرکن۔۔ قرآن کے ورق آنسوؤں سے گیلے کرتی خاموشی سے سر ہلاتی پڑھتی جاتی تھی۔۔ چونکہ روشنیوں کی چکاچوند تھی اس لئے میں ذرا سا جھک کر۔۔ جھانک کر۔۔ اس کے سامنے کھلے قرآن کو آسانی سے پڑھ سکتا تھا۔۔ چنانچہ میں نے یہ تانک جھانک شروع کر دی۔۔ یعنی میں جھاتیاں مار رہا تھا۔۔ اور قرآن پڑھنے کی سعی کر رہا تھا جو تُرکن کے سامنے کھلا تھا۔۔ مجھے تب احساس نہیں ہوا تھا لیکن آج اس منظر کو دوبارہ زندہ کرتا ہوں تو ذرا حیرت میں کھو جاتا ہوں کہ تب ایک عجیب سا اتفاق ہوا تھا۔۔ وہ تُرکن ظاہر ہے آس پاس اور خاص طور پر میری موجودگی سے سراسر غافل تھی لیکن وہ حیرت انگیز طور پر قرآن کا ورق تب الٹتی جب میں اس ورق کی آخری سطر کو پڑھ رہا ہوتا۔۔ نہ کبھی پہلے اور نہ کبھی بعد میں۔۔"


منہ ول کعبے شریف

از

مستنصر حسین تارڑ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔


،،سکھ حضرات کینیڈا کے ابتدائی آباد کاروں میں شمار ہوتے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اگر سکھ سر توڑ مشقت اور لگن کے ساتھ یہاں کے ویرانوں کو آباد نہ کرتے تو وہ کینیڈا نہ ہوتا جو آج ہے۔۔۔۔۔انگریزی اور فرانسیسی کے بعد پنجابی کینیڈا کی سب سے بڑی زبان ہے یہاں تک کہ وہاں کے ایک صوبے کا وزیر اعلی بھی ایک سردار منتخب ہوا تھا۔۔۔۔کینیڈا میں آباد سکھوں کا کمال یہ ہے کہ انہوں نے اپنے رواج،ثقافت،اور بولی محفوظ رکھے ہیں،۔آنہیں بھلایا نہیں۔۔۔۔۔۔۔وہ سکھ نوجوان جن کے جن کے باپ ،دادے،پردادے یہاں آکہ آباد ہوئے تھے وہ بھی اتنی ٹھیٹھ پنجابی بولتے ہیں کہ جی خوش ہوجاتا ہے۔۔۔۔یعنی ابھی تک وینکوور جو کینیڈا کا سب سے خوش نظر شہر ہے بنکوور ہی بولتے ہیں جیسا کہ ان کے ان پڑھ آباو اجداد بولتے تھے۔۔۔۔اور وہ دیگر سفید فاموں کی نسبت کہیں زیادہ متمول ہیں،وینکوور میں اگر آپ کوئی عالیشان رہائش دیکھتے ہیں تو وہ یقیننا کسی سردار کی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔

،،الاسکا ہائی وے،،

مستنصر حسین تارڑ صاحب،،


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔  


Aabpara wasn't a market, but a baby girl


 کلاں کی آب پارہ اب کہاں ہو گی؟

از

آصف محمود


اسلام آباد کی تاریخ میں باغ کلاں نامی گاؤں بہت اہمیت کا حامل ہے ۔ اسلام آباد کی شروعات اسی گاؤں سے ہوئیں ۔ کٹاریاں گاؤں یعنی جی فائیو سے تھوڑا پیچھے باغ کلاں نام کا یہ گاؤں تھا ۔ اسے باگاں بھی کہا جاتا تھا ۔ اسی گاؤں میں سیکٹر جی سکس آباد ہوا ۔ ادھر ہی اسلام آباد کا سب سے پہلا کمرشل زون تعمیر کیا گیا ۔ سرکاری ملازمین کے لیے سب سے پہلے رہائشی کورٹر بھی اسی گاؤں میں تعمیر کیے گئے ۔ انہی زیر تعمیر کوارٹرز میں سے ایک میں اسلام آباد کا پہلا پولیس اسٹیشن اور پہلا بنک قائم کیا گیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ایک چھوٹے سے کوارٹر میں قائم تھے ۔ یہ کوارٹرز آج بھی موجود ہیں اور انہیں لال کوارٹر کہا جاتا ہے ۔ 1961 کی مردم شماری میں راولپنڈی کی حدود میں باغ کلاں یعنی باگاں نام کا یہ گاؤں موجود تھا ۔ اس کا رقبہ 698 ایکڑ تھا اور اس کی آبادی 663 افراد پر مشتمل تھی ۔ باگاں بعد میں دارالحکومت بن گیا مگر 1961 کی مردم شماری تک یہ جی سکس نہیں، باغ کلاں تھا۔


 بری امامؒ کے والد گرامی سید محمود شاہ کاظمیؒ ہجرت کر کے اہل خانہ کے ساتھ اسی گاؤں میں آباد ہوئے تھے اور یہیں وہ مدفون ہیں ۔ شاہراہ کشمیر (سری نگر ہائی وے کہلاتی ہے) اور خیابان سہروردی کے بیچ گرین بیلٹ میں ان کی آخری آرام گاہ ہے ۔ بری امامؒ کی والدہ ، بہن اور بھائی بھی یہیں دفن ہیں ۔ ماسٹر پلان کے نقشے میں سڑک مزار کے اوپر سے گزر رہی تھی ۔ اس مزار کے احترام میں ماسٹر پلان کو بدلتے ہوئے شاہراہ کشمیر کوروز اینڈ جیسمین گارڈن کی طرف موڑ کر گزارا گیا اور مزارات محفوظ رکھے گئے ۔ یہ اہتمام بھی کیا گیا ہے کہ دائیں بائیں سے سڑک اتنے فاصلے سے گزرے کہ اس مدفن اور اس سے ملحقہ تکیے کا سکون ممکن حد تک برقرار رہے ۔ آج بھی یہاں زائرین ہر وقت موجود ہوتے ہیں ۔ یہیں شمال کی جانب بوڑھ کے ایک اور گھنے درخت کے نیچے اسلام آباد کا پہلا بس اسٹاپ قائم کیا گیا۔


اسلام آباد کی باقاعدہ شروعات باگاں سے ہوئیں اور یہاں سرکاری ملازمین کے کوارٹر بنا کر کراچی سے ملازمین کو یہاں بھیجا گیا ۔ ان ملازمیں میں بڑی تعداد مشرقی پاکستان کے لوگوں کی تھی ۔ ان میں سے عبد الواحد کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی ۔ یہ اس نئے شہر میں جنتوں سے آنے والا پہلا ننھا وجود تھا جس سے تمام ملازمین اور ان کے گھرانوں میں خوشی کی لہردوڑ گئی ۔ بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتے ہوئے اسے اسلام آباد کے لیے برکت قرار دیا گیا ۔ سب نے مل کر خوشی منائی جیسے سب کے گھرانوں پر رحمت اتری ہو۔


والدین نے بیٹی کا نام ”آب پارہ“ رکھا ۔ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ مبارک دینے عبد الواحد کے گھر آئیں تو پوچھا بیٹی کا کیا نام رکھا ہے ۔ بتایا گیا کہ اس کا نام آب پارہ ہے۔انہی دنوں باگاں گاؤں میں اسلام آباد کی پہلی مارکیٹ تعمیر ہو رہی تھی ۔ سی ڈی اے نے یہ مارکیٹ اپنے اس بیٹی سے منسوب کر دی اور آج ہم اسے آب پارہ مارکیٹ کہتے ہیں ۔ 71ء کی جاڑے کی یخ بستگی میں ہم ایسے برفاب ہوئے کہ بیٹی گنوا دی اور ہمارے حصے میں مارکیٹ رہ گئی ۔۔۔۔ دسمبر کے ٹھٹھرتے موسم میں ٹریل فائیو کے بوڑھے برگد کے ساتھ بیٹھ کر دھوپ تاپتے جب سی ڈی اے کے ایک بزرگ ریٹائرڈ افسر مظفر قزلباش صاحب نے مجھے یہ کہانی سنائی تو کچھ یاد نہیں کہ حیرت زیادہ تھی یا دکھ زیادہ تھا۔


 بیٹیاں سانجھی ہوتی ہیں لیکن حالات کی ستم ظریفی دیکھیے یہ بیٹی صرف گیارہ سال بعد پرائی ہو گئی اور اس کے اور پاکستان کے بیچ نفرتوں کی خلیج حائل ہو گئی ۔ دسمبر کے ان ایام میں جب میں اسلام آباد میں بیٹھا اس بیٹی کو یاد کر رہا ہوں کیا عجب ڈھاکہ، راجشاہی، سلہٹ، نرائن گنج یا کسی اور شہر میں کہیں یہ بیٹی بھی جو اب نانی اور دادی اماں بن چکی ہو گی ، اپنے بچوں نواسوں اور پوتوں پوتیوں کو بتا رہی ہو کہ پاکستان کے دارالحکومت میں ، جب میں پیدا ہوئی تو اس قدر خوشی منائی گئی تھی کہ اسلام آباد کی سب سے مشہور جگہ مجھ سے منسوب کر دی گئی اور وہ آج تک میرے نام سے پکاری جاتی ہے۔


اب مجھے اس داستان کی پوری تفصیل جاننا تھی ۔ آرکائیوز اور لائبریریوں کا رخ کیا، 

 تھوڑی سی مشقت تو اٹھانا پڑی لیکن خبر بھی مل گئی اور تصویر بھی ۔ ایک بنگالی افسر اپنی بیٹی کو ہاتھوں میں اٹھائے ہوئے ہے اور اس کے چہرے پر ایسی خوشی ہے کہ اس سے گویا سنبھالی نہیں جا رہی ۔ ساتھ ہی ایک خاتون کھڑی ہیں جن کے بارے میں بتایا گیا کہ یہ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ ہیں ۔ نام نہیں لکھا ، صرف یہی لکھا ہے کہ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ اسلام آباد میں پیدا ہونے والے پہلے بچے کے گھر مبارک دینے پہنچی ہیں ۔ سی ڈی اے کے پہلے چیئر مین یحیی خان تھے ۔ یا تو یہ ان کی اہلیہ ہیں یا پھر ڈبلیو اے شیخ کی اہلیہ ہیں جو 1961میں چیئر مین سی ڈی اے بنے۔


سوال مگر یہ نہیں کہ چیئر مین سی ڈی اے کی اہلیہ کون تھیں ۔ سوال یہ ہے کہ اسلام آباد کی یہ بیٹی، باغ کلاں کی یہ آب پارہ اب کہاں ہو گی؟ دسمبر میں جیسے ہم اسے یاد کرتے ہیں کیا وہ بھی ہمیں یاد کرتی ہو گی؟ اب تو وہ نانی یا دادی بن چکی ہو گی کیا وہ بھی بنگلہ دیش کے کسی شہر یا گاؤں میں، کسی آتش دان کے پاس بیٹھ کر، اس موسم میں اپنے پوتوں پوتیوں اور نواسوں نواسیوں کو بتاتی ہو گی کہ ہزاروں میل دور مارگلہ کے جنگل میں جب ایک شہر بس رہا تھا تو اس شہر کی پہلی مارکیٹ مجھ سے منسوب کی گئی تھی اور آج بھی اسلام آباد نام کے اس شہر میں آب پارہ نام کی وہ مارکیٹ موجود ہے؟ کیا میری طرح اس کے سینے سے بھی ہوک اٹھتی ہو گی؟ 


کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ اسلام آباد میں کبھی کوئی تقریب سجائی جائے اور بنگلہ دیش میں ایک دعوت نامہ بھیجا جائے کہ پیاری بیٹی آب پارہ،ایک بار آ کر اپنا آب پارہ تو دیکھ جاؤ ۔ دیکھو اب یہاں کتنی رونق ہو چکی ہے۔ آ جاؤ کہ تمہارا آب پارہ آج بھی تمہارا منتظر ہے؟ 

کب نظر میں آئے گی بے داغ سبزے کی بہار

خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

،،آئی ایم فرام پاکستان۔۔۔۔لاہور۔۔۔۔،،

اب یہ جو لفظ لاہور کا ہے ،ایک اسم اعظم ہے،یہ ہر در کھول دیتا ہے آپ دلی میں ہوں،ٹمبکٹو میں،یا برزبین میں جونہی آپ کسی دیسی شکل کے بندے کو،،لاہور،،کہتے ہیں تو وہ پگھل جاتا ہے۔۔۔۔دشمن دوست ہوجاتا ہے اور آنکھوں میں نمی آنے لگتی ہے۔۔۔۔۔برصغیر کا کوئی شہر اپنے نام میں ایسا سامری پن نہیں رکھتا۔۔۔۔۔میں نے بڑے بڑے متکبر سرداروں اور متعصب ہندووں کو لاہور کے نام پر موم اور آبدیدہ ہوتے دیکھا ہے۔۔۔۔

،،تسی لاہور دے او،،۔۔۔۔۔وہ میری جانب یوں کھنچا چلا آیا جیسے میں خود لاہور ہوں ایک مقناطیس ہوں۔۔۔۔۔،،تسی الاسکا وچ۔۔۔۔۔،،

،،الاسکا ہائی وے ،،

جناب سر مستنصر حسین تارڑ صاحب،،

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


"کل میں انسان کی عظمت پر لکھ رہا تھا کہ اچانک محلے میں شور اور اونچی اونچی آوازیں سنائی دینے لگیں....باہر نکل کر دیکھا تو آدمی، آدمی پر بھونک رہا تھا___ساتھ ہی گیلی مٹی پرکچھ کتے میٹھی نیند سو رہے تھے۔" 


کرشنن چندر

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"باب ملتزم کو کعبہ کے رکھوالے ایک بڑی نقرئی چابی سے کھولتے ہیں۔۔

یہ چابی فتح مکہ کے دوران عثمان بن طلحہ کے پاس تھی اور اس نے رسول اللہ کو یہ چابی دینے سے انکار کر دیا جس پر اس کی ماں نے سرزنش کی کہ محمد فاتح ہے، وہ تم سے یہ چابی زبردستی بھی لے سکتا ہے تو انکار نہ کرو۔۔ اور جب اس نے خانہ کعبہ کی چابی حضور کی خدمت میں پیش کی تو انہوں نے اس کے انکار کے بغض کو نظر انداز کر دیا اور کہا کہ تمہاری سب آئندہ نسلوں کے لیے خانہ کعبہ کی چابی کی ملکیت برقرار رہے گی۔۔"


منہ ول کعبے شریف

از

مستنصر حسین تارڑ 

No comments:

Post a Comment

Urdu Books Library

Prophet Muhammadﷺ says.  " Try to get knowledge from cradle to death. We are here to get knowledge. We are here to spread knowledge.  F...