کالمیات


۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"شمال کے شیدائی‘ سودائی"

اتوار 29 ستمبر 2019ء


کم از کم میں تو اس حقیقت سے انکار کر کے کافر نہیں ہونا چاہتا کہ پاکستانی شمال ایک سحر انگیز خطہ ہے جس کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے۔ یہ بندے کو سودائی کر دیتاہے۔ شیدائی کر دیتا ہے۔ جونہی موسم گرما کا آغاز ہوتا ہے۔ فیئری میڈو کی برفوں میں سے سٹرابیری کا پہلا پھول نمودار ہوکر بہار کی نوید دیتا ہے۔ کرومبر جھیل پر چلتے ہوئے یاکوں کے قافلے محسوس کرتے ہیں کہ ان کے سموں تلے جو منجمد برف تھی اس کے پگھلنے کے دن آ گئے ہیں۔ پھنڈر جھیل کے پانیوں میں ٹرائوٹ مچھلیاں اچھلنے لگتی ہیں۔ اور سنولیک کی برفوں پر پہلی تتلیاں اڑان کرنے لگتی ہیں تو وہ دن ہوتے ہیں جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دل عشاق کی خبر لینا۔ پھول کھلتے ہیں ان مہینوں میں تو یہ وہ دن ہوتے ہیں جب شمال کے شیدائیوں کے دلوں میں پہاڑیوں کے جنون کے پھول کھلتے ہیں اور وہ بیتاب اور بے اختیار ہو کر ان خطوں کا رخ کرتے ہیں۔ میں تذکرہ کر چکا ہوں کہ ’’ہرکاش ناقابل فراموش‘‘ کی کوہ نوردی سے پیشتر گلگت بلتستان کے چیف منسٹر نے ازراہ کرم نہ صرف مجھے شمال کے بارے میں پندرہ کتابیں تحریر کرنے کے ’’جرم‘‘ میں ایک خصوصی ایوارڈ سے نوازا بلکہ شمال کے بارے میں ہر برس بہترین ڈاکومنٹری اور بہترین کتاب تخلیق کرنے پر میرے نام کا ایک ایوارڈ بھی جاری کرنے کا اعلان کیا۔ اللہ جانے اس ایوارڈ نے اعلان کے ساتھ ہی دم توڑ دیا یا وہ ابھی تک جاری ہے۔ اس موقع پر انہوں نے ازراہ تفنن مجھ سے کہاکہ تارڑ صاحب شمال میں جو بیشتر لوگ آئے وہ آپ کی کتابیں پڑھ کر آئے لیکن اب آپ سے درخواست ہے کہ کوئی ایسی کتاب لکھئے جس میں عوام الناس سے التجا ہو کہ پلیز آپ ذرا کم کم شمال آئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ اس برس عید کے فوراً بعد تقریبا بائیس ہزار کاریں اور کوسٹر شمال میں داخل ہوئے جب کہ گلگت بلتستان میں کل باون ہزارکاریں اور بسیں وغیرہ ہیں تو ہم ان بائیس ہزار کاروں وغیرہ کے لئے اتنا پٹرول کہاں سے لائیں۔ پورے خطے میں ہوٹلوں میں کل چھ ہزار بستر ہیں اور وہ تقریباً پچاس ہزار سیاحوں کے لئے کیسے کافی ہو سکتے ہیں۔ تو ذرا کم کم آئیے۔۔۔"



مستنصر حسین تارڑ

ایک کالم سے اقتباس

92 نیوز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"تنہائی کے سو رُوپ ہیں"

بدھ 09 اکتوبر 2019ء


"تنہائی کے سو روپ ہیں۔ اس کا ایک روپ ایسا ہے جس میں انسان خود ایک اداسی گھولتا ہے اور اس کیفیت کو اپنے اوپر طاری کر کے ایک لطف سے آشنا ہوتا ہے جیسے آج تنہائی کسی ہمدمِ دیرینہ کی طرح کرنے آئی ہے میری ساقی گری شام ڈھلے…چنانچہ تنہائی کا یہ رُوپ کسی حد تک رومانوی ہوتا ہے۔ اس میں مجبوری کا عمل دخل نہیں ہوتا، ایک تنہائی رُوح کی ہوتی ہے اور یہ سانس کی عطا کے ساتھ آپ کے نصیب میں لکھ دی جاتی ہے۔ اس پر اختیار نہیں ہوتا، یہ ودیعت کردہ ہوتی ہے اور یہ انسان کو اس کائنات کی وُسعت میں اُس کے ذرہ وجود کا احساس دلاتی ہے کہ تمہاری حیثیت اس جہانِ رنگ و بو میں کوئی حیثیت نہیں رکھتی۔ تنہائی کبھی اس سرشاری کی جستجو میں اختیار کی جاتی ہے جو صرف خالق کی قربت کو حاصل کرنے کے لیے خلق سے جُدا ہونے کی صورت میں ہی نصیب ہوتی ہے۔ ایک جغرافیائی اور نسلی تنہائی ہوتی ہے جس کے نتیجے میں انسان اپنے قبیلے سے کٹ جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ انسان صرف تنہائی میں ہی ارتقا کی منازل طے کرتا ہے کہ وہ سب سے الگ ہو کر ہمہ وقت ایک سوچ میں مبتلا رہتا ہے اور کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچ جاتا ہے۔ جتنے بھی تخلیقی ذہن ہوتے ہیں۔ وہ ادیب ہوں یا سائنسدان صرف تنہائی میں ہی اپنے من میں ڈوب کر ہی سراغ زندگی پاتے ہیں۔۔"


مستنصر حسین تارڑ

ایک کالم سے اقتباس

92 نیوز

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

"کرتار پور ایک سچا سودا؟"

اتوار 27 اکتوبر 2019ء


"مجھے یاد ہے جب میں پہلی بار کرتار پور گیا تو کالا خطائی کے راستے کے دونوں جانب گندم کے ہرے بھرے کھیت لہلہاتے مشک بار ہوتے تھے۔ دریائے راوی میں پانی بہت ہی کم تھا اور اس میں مچھلیاں اچھلتی تھیں اور تب بہت دور سے تاحد نظر ہریاول کھیتوں میں ایک عجب سادہ اور دل کش سفید عمارت یوں ہولے ہولے ظاہر ہونے لگی جیسے ان کھیتوں میں سے جنم لے رہی ہو۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ وہ ایک دل پر اثر کرنے والی سحر انگیز عمارت تھی۔ بھری دوپہر تھی جب ہم نے بابا نانک کے کنویں سے پانی پیا اور ان کی ’’قبر‘‘ پر حاضری دی۔ روائت یہی ہے کہ بابا جی کے انتقال پر ان کے ہندو اور مسلمان مریدوں میں ان کی آخری رسومات ادا کرنے کے حوالے سے اختلاف پیدا ہو گیا۔ ہندو دعویٰ کرتے تھے کہ وہ تلونڈی کے ایک شدھ ہندو گھرانے میں پیدا ہوئے تھے اس لئے انہیں جلانا چاہیے اور مسلمان ان کی تعلیمات کے حوالے سے مصر تھے کہ وہ وحدانیت پرست تھے‘ توحید کا درس دیتے تھے اور بُت پرستی کے شدید مخالف تھے اس لئے انہیں دفن کرنا جائز ٹھہرتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب اس چادر کو ہٹایا گیا جس نے ان کے تن مردہ کو ڈھانپ رکھا تھا تو وہاں بابا جی نہ تھے بلکہ ان کی جگہ پھولوں کا ایک ڈھیر تھا۔ اس روائت کے مطابق ان میں سے آدھے پھولوں کو نذر آتش کر دیا گیا اوربقیہ نصف پھولوں کو دفن کر دیا گیا۔ چنانچہ کرتار پور گوردوارے کے احاطہ میں گورونانک کے پھولوں کی علامتی جگہ موجود ہے اور عمارت کے اندر وہ مقام بھی دیکھا جا سکتا ہے جہاں ان کی سمادھی ہے۔"



مستنصر حسین تارڑ

ایک کالم سے اقتباس)

No comments:

Post a Comment

Urdu Books Library

Prophet Muhammadﷺ says.  " Try to get knowledge from cradle to death. We are here to get knowledge. We are here to spread knowledge.  F...